یہ قانون کس کے بارے میں ہے؟
دستور کی دفعہ 21(A) ۔ (دستور کی86 ویں ترمیم) ایکٹ 2002
دسمبر 2002دفعہ 21(A) (پارٹ III ) کے ذریعہ 86 ویں ترمیمی ایکٹ 2002 میں 6تا 15 سال عمر کے بچوں کیلئے مفت اور لازمی تعلیم ایک بنیادی حق قرار دیا گیا۔
اکتوبر 2003
عوام سے بڑے پیمانے پر مشورہ اور تجاویز وتبصروں کیلئے اکتوبر 2003 میں اس ویب سائٹ پر اس ارٹیکل کا تیار کردہ پہلا ڈرافٹ (مفت اور لازمی تعلیم برائے اطفال بل 2003) پوسٹ کیا گیا۔2004
س ڈرافٹ پر موصول آراء کو ذہن میں رکھتے ہوئے ایک نظر ثانی کردہ فری اینڈ کمپلسری ایجوکیشن بل 2004 کے نام سے تیار کیا گیا۔جون 2005
CABE (سنٹرل اڈوائزری بورڈ آف ایجوکیشن) کمیٹی نے رائٹ ٹو ایجوکیشن بل تیار کیا اور وزارت انسانی وسائل کو سونپا۔MHRD نے اسے NAC کو بھیجا جہاں سونیا گاندھی چیئرپرسن تھیں۔NAC نے بل کو مشاہدہ کیلئے وزیر اعظم کو روانہ کیا۔
14 جولائی 2006
فنڈس کی کمی کے چلنے فئنانس کمیشن اور پلاننگ کمیشن نے بل کو مسترد کردیا اور ضروری انتظامات کیلئے یک ماڈل بل ریاستوں کو روانہ کیا گیا، (86 ویں ترمیم سے پہلے، ریاستوں نے پہلے ہی فنڈس کی کمی کا جواز پیش کیا تھا)2009
2009میں پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں بچوں کے لیے مفت اور لازمی تعلیم کا بل 2008 منظور ہوا، اگست 2009 میں بل کو صدر جمہوریہ کی توثیق حاصل ہوگئی۔یکم اپریل 2010
آرٹیکل 21-A اور آرٹی ای ایکٹ نافذ العمل ہوگیا۔بچوں کیلئےیہ قانون کیوں اہمیت کا حامل ہے اور ہندوستان کے لیے اسکا کیا مطلب ہے
مفت اور لازمی تعلیم کا حق (RTE)ایکٹ 2009 کی منظوری ہندوستان کے بچوں کیلئے ایک تاریخی سنگ میل تھایہ قانون ایک بلڈنگ بلاک کی حیثیت رکھتا ہے جو ہر لڑکے اور لڑکی کے لیے معیاری بنیادی تعلیم کا حصول ایک حق قرار دیا ہے اور ریاستیں ، خاندانوں کی مدد اور تعاون سے اس مقصد کے حصول کیلئے کمربستہ ہیں۔
دنیا کے کچھ ہی ممالک میں اسطرح کا قومی قانون ہے جو مفت اور طفل مرکوز طفل دوست تعلیم کو یقینی بناتا ہے۔
مفت اور لازمی ابتدائی (المینٹری ) تعلیم کیا ہے؟
6تا 14سال تک کے تمام بچوں کو قریب کے اسکول میں مفت اور لازمی کاحق دیا گیا ہے بنیادی تعلیم کے حصول کیلئے کوئی راست (اسکول فیس) یا بالراست خرچ (یونیفارم، نصابی کتب، مڈڈے میل، حمل ونقل) بچے یا اسکے سرپرستوں کو برداشت نہیں کرنا ہے۔ حکومت اسکولی تعلیم مفت فراہم کرکے یہاں تک کے بچے کی بنیادی تعلیم مکمل نہ ہوجائے۔
۔ آرٹی ای کویقینی بنانے کیلئے سماج اور والدین کا کیا رول رکھا گیا ہے بچہ کیلئے مفت
(SMC) کی تشکیل پرزور دیتا ہے جو مقامی ذمہ دار عہدیداران، سرپرستوں، والدین اور اساتذہ پر مبنی ہو، (SMC) اسکول کے ترقیاتی منصوبے تیار کرے گی اور حکومتی امداد کے استعمال اور پورے اسکول کے ماحول کی نگرانی کرے گی۔
RTE نے (SMC) میں 50 فیصد خواتین اور پسماندہ گروپ نے بچوں کے والدین کی شمولیت کو ضروری قرار دیا ہے اسطرح کی سماجی شمولیت چائلڈفرینڈلی مکمل اسکولی ماحول کویقینی بنانے میں اہم رول ادا کرتی ہے اسمیں لڑکوں اور لڑکیوں کیلئے علحدہ بیت الخلاء کی تعمیر صحت پر مناسب توجہ ، پانی نکاسی کا انتظام اور حفظان صحت بھی شامل ہے۔
رٹی ای کسطرح چائلڈ فرینڈلی اسکولس کو فروغ دیگی ایک قابل تعلیمی ماحول
کیلے لازمی شرائط میں اسکول کا انفراسٹرکچر اور ٹیچرس سے لیس ہونا ضروری ہے پرائمری سطح پر ہر 60 طلباء کیلے دوٹرینڈ ٹیچرس فراہم کیئے جائیں گے۔
اساتذہ پابندی کے ساتھ اسکول اٹینڈ کریں، نصابی سرگرمیوں کی تکمیل کریں سیکھنے کی صلاحیتوں کا تجزیہ کریں اور پابندی کے ساتھ پیرینٹ ٹیچر میٹنگ کا انعقاد کریں۔ اساتذہ کی تعداد طلباء کی تعداد پر منحصر ہے ہ کہ گریڈ پر۔
بچوں کی بہترین تعلیمی استعداد کیلئے ضروری مناسب تعاون اور مدد اساتذہ کو فراہم کی جائیگی۔ اسکول کے معیار اور برابری کو یقینی بنانے کیلے سماج اور سول سوسائٹی ایس ایم سی کے ساتھ ملکر اہم ترین کردار ادا کرسکتے ہیں۔ ریاست پالیسی فریم ورک فراہم کریگی اور ایسا ماحول تیار کریگی جسمیں آرٹی ای ہر بچے کیلئے ایک حقیقت بن جائے۔
RTE کو کسطرح فینانس ہوگا اور ہندوستان میں کی کیسے نافذ ہوگا۔ RTE کی معاشی ذمہ داری، ریاستیں اور مرکز ایک دوسرے کے ساتھ ملکر اٹھاءیں گے، مرکزی حکومت اخراجات کا تخمینہ تیار کرے گی ریاستی حکومتوں کو ان اخراجات کا کچھ فیصد فراہم کیا جائیگا۔
RTE کو کسطرح فینانس ہوگا اور ہندوستان میں کی کیسے نافذ ہوگا۔
کی معاشی ذمہ داری، ریاستیں اور مرکز ایک دوسرے کے ساتھ ملکر اٹھاءیں گے، مرکزی حکومت اخراجات کا تخمینہ تیار کرے گی ریاستی حکومتوں کو ان اخراجات کا کچھ فیصد فراہم کیا جائیگا۔
RTE کے حصول میں اہم مسائل کیا ہیں؟
پہنچ سے پرے افراد تک رسائی کا ایک پلیٹ فارم RTE فراہم کرتی ہے جو پسماندہ طبقات جیسے بچہ مزدوری ، مہاجر بچے، خصوصی ضروریات رکھنے والے بچے اور وہ سماجی، معاشی ، تہذیبی، جغرافیائی، لسانی، نسلی اور اسی طرح کی دیگر عناصر کی بنیاد پر پسماندہ رہ گئے ہیں کیلئے مخصوص سہولت رکھتی ہے۔ RTE درس وتدریس کے معیار پر توجہ دیتی ہے جو مسلسل کاوش اور اصلاحات کے متقاضی ہیں۔
اس ایکٹ کے تحت فراہم کردہ حقوق کے تحفظات کا تجزیہ بچوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے قائم کردہ قومی کمیشن انجام دیگا۔ وہ شکایات کی جانچ کرے گا اور معاملات کی سماعت کیلئے سول کورٹ کے اختیارات رکھتا ہے۔
ریاستیں بچوں کے حقوق کے تحفظ کیلئے ریاستی انسداد حقوق اطفال کمیشن SCPCRیکم اپریل 2010 کے بعد 6ماہ کے عرصہ میں تشکیل دیں تو کوئی شخص اگر اعتراض داخل کرنے کا خواہش مند ہو تو وہ تحریراً مقامی عہدیداران تک شکایات داخل کر سکتا ہے ۔
اپیلوں کا فیصلہ SCPC/RERA کریگا۔ معاملات کی سماعت مناسب حکومت سے تسلیم شدہ ایک آفیسر کی منظوری سے ہوگی۔
2002 میں دستور میں 86 ویں ترمیم کے ذریعہ تعلیم کو بنیادی حق قرار دیا گیا ہندوستانی دستور میں ترمیم کے 6سال بعد مرکزی کابینہ نے رائٹ ٹو ایجوکیشن بل کلیئر کیا بل کی اہم شفارشات میں شامل ہیں۔ پشماندہ طبقات کے بچوں کے لیے قریبی نجی اسکولوں میں 25 فیصد ریزوریشن حکومت اسکول کے اخراجات ادا کرے گی۔ داخلہ پر کسی قسم کا ڈونیشن نہیں لیا جائیگا۔ اور اسکریننگ پروسس کے حصہ کے طور پر بچے یا والدین کا انٹرویوں نہیں لیا جائیگا۔ بل میں جسمانی سزا، اخراج اور ٹیچرس کو غیر تدرسی سرگرمیوں میں معروف کروانا (سوائے مرد، شمای اور انتخابات کی ڈیوٹی اور آفات میں ریلیف کے موقع پر ڈیوٹی) پر پانبدی عائد کردی گئی۔ بغیر منظوری کے اسکول چلانے پر سزا بھگتنی ہوگی۔
رائٹ ٹو ایجوکیشن بل کے ذریعہ پارلیمنٹ 86 ویں ترمیم کا نوٹیفکیشن جاری کرنے کا مجاز ٹہری جسکے تحت ہر بچے کو 6 تا 14 سال عمر کے درمیاں مفت اور لازمی تعلیم کا حق حاصل ہوا۔
سپریم کورٹ نے 12 اپریل 2009 کو بچوں کیلے مفت اور لازمی تعلیم کے قانون 2009 کا دستوری جواز قائم رکھا اور ہر اسکول بشمول نجی اسکولوں کو ہدایات دی کے سماجی اور معاشی طورپر پسماندہ طبقات سے متعلق بچوں کو کلاس اول تا 15 سال کی عمر تک فوراً مفت تعلیم فراہم کی جائے۔
کورٹ نے قانون کی دفع 12(1)(C) کو نجی غیر امدادی اسکولس کی جانب سے چیلنج کرنے والی عرضی کو خارک کردیا جسکے مطابق پرائمری تعلیم فراہم کررہا ہر منظور شدہ اسکول چاہے وہ غیر امدادی اسکول کیوں نہ ہو جسے کسی بھی قسم کی ایڈیا گرانٹ میسر نہ ہو تب ہی اسکے لیے ضروری ہے کہ وہ انکے قریبی علاقوں سے متعلق پسماندہ طبقات کی لڑکیوں اور لڑکوں کو داخلہ دیں۔
مآخذ: دی ٹائمز آف انڈیا
Last Modified : 4/9/2020