یہ کیوں اہمیت کا حامل ہے؟
- ملیریا ایک شدید بیماری ہے جو مچھروں کے کاٹنے سے پھیلتی ہے بین الاقوامی ادارہ صحت WHO کے مطابق 2006 میں 250 ملین ملیریا کے واقعات پیش آئے جسکے نتیجہ میں 1 ملین اموات واقع ہوئیں۔ ملیریا سے زیادہ تر اموات سب صحرائی افریقہ میں ہوئیں جسمیں زیادہ تعداد 5 سال سے کمر عمر بچوں کی تھی۔
- ملیریا دنیا کے متعدد علاقوں میں پایا جاتا ہے۔ صحرائی افریقہ یہ اموات، بیماری اور چھوٹے بچوں میں خراب افزائش/ نمو کی اہم وجہ ہے۔ یہ تخمینہ لگایا گیا ہے کہ اس علاقہ میں ہر 30 سیکنڈ میں ایک بچہ ملیریا سے فوت ہوتا ہے۔
- بالخصوص حاملہ خواتین کیلئے ملیریا کافی خطرناک ہے تقریباً 50 ملین حاملہ خواتین ہر سال تقریباً20 فیصد کم پیدائش کی شرح کے ساتھ ساتھ خون کی کمی، میٹرنل بیماریوں اور مردہ بچوں کی پیدائش سے متاثر ہوتی ہیں۔
- نوفولس مچھر کے کاٹنے سے ملیریا پھیلاتا ہے، مچھر ملیریا کے جراثیم ، پلازموڈیم فرد سے فرد تک منتقل کرتے ہیں، لوگ اس کے نتیجہ میں بخار، ڈائریا، قئے، سر درد، جاڑا اور فلوجیسی بیماریوں کا شکار ہوتے ہیں، بالخصوص بچوں میں بیماری شدید صورت اختیار کرکے کوما اور موت کا سبب بنتی ہے۔ 5سال سے کم عمر بچوں کو ملیریا زیادہ ہوتا ہے کیونکہ انکے اندر اس سے دفاع کی بہت کم قوت ہوتی ہے۔
- ملیریا کو پھیلنے سے بچانے اور ابتدائی حالت میں ہی اسکے علاج سے کئی جانیں بچائی جاسکتی ہیں۔ بچوں اور انکے والدین کو معیاری صحت کی دیکھ بھال موثر علاج اور ملیریا کی روک تھام کا حق حاصل ہے۔
- حکومت، سماجی حلقوں اور غیر سیاسی تنظیموں کے اشتراک سے ملیریا کی تعداد میں کمی کرسکتی ہے۔ انہیں تدارک سرگرمیوں جیسے لمبے عرصہ تک چلنے والی مچھردانیوں کی تقسیم میں تعاون کرناچاہیئے تاکہ افراد انکے اندر سوسکیں۔
ہر خاندان اور سماج کو کیا جاننے کا حق حاصل ہے۔
- ملیریا کن مچھروں کے کاٹنے سے پھیلتا ہے، جراثیم کش مچھردانیوں کے تحت سونا، مچھرکے کاٹنے سے بچنے کا موثر طریقہ ہے۔
- جہاں کہیں ملیریا موجود ہوتا ہے بچوں کو اس سے زیادہ خطرہ ہوتا ہے۔ ایک تربیت یافتہ ہیلتھ ورکرکے ذریعہ جلد از جلد بخار سے متاثرہ بچے کا معائنہ کروانا چاہیئے اور ملیریا کی تشخیص کے بعد ضروری اینٹی ملیریا علاج جلد از جلد شروع کرنا چاہیئے۔ آریمسنن پر مبنی کمبینیشن تھیراپلیس (ACT) جو WHO نے پلاسموڈیم گولی ملیریا کے لیے تجویز کی ہیں لینا چاہیئے۔ یہ ملیریا کی سب سے شدید قسم ہے اور اسی کے سبب تقریباً تمام ملیریائی اموات واقع ہوئی ہیں۔
- حاملہ خواتین کیلئے ملیریا کافی خطرناک ہے۔ جہاں کہیں بھی ملیریا عام ہوتا ہے انہیں ملیریا مخالف ادوایات دیکر ملیریا سے بچانا چاہیئے جن کی تجویز تربیت یافتہ ہیلتھ ورکرنے کی ہو اور انہیں جراثیم کش مچھر دانیوں میں سونا چاہیئے۔
- یک بچہ جو ملیریا سے متاثر ہو یا اس سے ابھررہا ہو کیلئے بڑی مقدار میں مائع اور غذاوں کی ضرورت ہوتی ہے۔
تائیدی معلومات
اہم پیغامات :۔ ملیریا کچھ مچھروں کے کاٹنے سے منتقل ہوتا ہے۔ مچھر کے کاٹنے سے بچنے کے لیے جراثیم کش مچھردانیوں کے تحت سونا ایک بہترین طریقہ ہے۔
لمبے عرصہ تک جراثیم کش مچھردانیاں کم ازکم 3 سال تک استعمال کی جاسکتی ہیں اور اسے جراثیم کش بنانے کی دوبارہ ضرورت نہیں پڑتی۔ یہ مچھردانیاں ملیریا کنٹرول پروگرامس کے ذریعہ تقسیم کی جاتی ہیں اور ہیلتھ فیسی لیٹیز کے ذریعہ یا چائلڈ ہیلتھ ڈیزیا مربوط مہمات کے ذریعہ حاصل کی جاسکتی ہیں۔ زیادہ تر مچھر دانیاں مفت تقسیم کی جاتی ہیں بالخصوص حاملہ خواتین اور چھوٹے بچوں کیلئے ۔یہ بازار سے یا سوشل مارکٹنگ پروگرامس سے بھی خریدی جاسکتی ہیں بالخصوص شہری علاقوں میں کچھ معاملات میں جہاں غیر جراثیم کش جالیاں ابھی بھی استعمال میں ہیں تربیت یافتہ ہیلتھ ورکرس محفوظ جراثیم کش اور ریٹریٹمنٹ پر مشورہ دے سکتے ہیں۔
جراثیم کش مچھر دانیوں کا استعمال سال بھر کیا جانا چاہئے یہاں تک کہ جب مچھر کم ہوں جیسے کے سوکھے موسم میں
کچھ ممالک میں گھروں کی دیواروں پر چھڑکاو کا کام بھی کیا جاتا ہے جس میں لمبے عرصہ تک جراثیم کش ادویات ہوتی ہیں جو مچھروں کو ختم کرتی ہیں سماج کو ان چھڑکاو ٹیموں کے ساتھ تعاون کرنا چاہیئے تاکہ تمام مکانوں میں چھڑکاو کو یقینی بنایا جاسکے۔
جراثیم کش مچھر دانیوں کے استعمال کے علاوہ یا مچھر دانیاں دستیاب نہ ہونے کی صورت میں یا استعمال نہ کی جاتی ہو دیگر تدابیر بھی مددگار ہوسکتی ہیں، لیکن وہ اتنی اثر دار نہیں ہوتی جتنی کے مچھر دانیوں کا استعمال ۔
- دروازوں اور کھڑکیوں پر جالیوں کا لگانا، یہ زیادہ تر شہری علاقوں میں کیا جاتا ہے اور روایتی دیہی مکانات میں زیادہ مفید نہیں ہوتے۔
- مچھروں کی کائلس کا استعمال: یہ مچھروں کو پسپا کرسکتے ہیں لیکن مچھروں کو مار نہیں سکتے۔
- ہاتھوں اور پیروں کو ڈھکنے والے کپٹروں کا استعمال (لمبے آستینوں اور لمبے ٹراوزرس اور اسکرٹس) یہ سردیوں میں کار آمد ہوسکتے ہیں جبکہ ملیریائی مچھر زیادہ متحرک ہوتے ہیں شام سے فجر تک۔
اہم پیغامات: جہاں کہیں ملیریا کا خطرہ ہوتا ہے بخار سے متاثر افراد کی تربیت یافتہ ہیلتھ ورکرکے ذریعہ جلداز جلد جانچ کروانا چاہیئے اور ملیریا کی تشخیص کی صورت میں مناسب اینٹی ملیرئیل دوا جتنی جلد ممکن ہواتنی جلد لینا چاہیئ
اگر کسی فیملی کے رکن کو بخار ہو یا چھوٹے بچے کھانا کھانے سے انکار کریں یا قے کریں، ڈائریا یا جھٹکے اونگھ کا شکار ہو وہاں ملیریاکا شبہ ہوسکتا ہے۔
ایک بچہ جو ملیریا کے سبب بخار میں مبتلا ہو کا جلد از جلد کسی تربیت یافتہ ڈاکٹر کی تجویز کردہ، اینٹی ملیریائی علاج کروانا چاہیئےاگر ممکن ہوسکے بچہ کا ریپڈ ڈائلسنک ٹسٹ (RTD) یا مائکرو اسکوپی کروانا چاہیئے تاکہ ملیریا کے انفیکشن کی تصدیق ہوسکے۔ RTD کافی سستا اور آسانی سے دستیاب ٹسٹ ہے۔
ایک بچہ جو ملیریائی بخار سے متاثر ہواگر اسکا ایک دن کے اندر علاج نہ شروع ہو وہ فوت ہوسکتا /ہوسکتی ہے۔ پلازموڈیم فالسپرم ملیریا کے علاج کیلئے WHO کےACTS کی سفارش کی ہے۔ ایک تربیت یافتہ ڈاکٹر کس قسم کا ACT علاج بہتر ہوگا اور قومی گائیڈ راشن کے حساب سے کتنے عرصہ تک اسے لینا ہوگا اس سلسلہ میں مناسب رہنمائی کرسکتا ہے۔ ملیریا
کے نتیجہ میں عام طورپر تیز بخار اور جاڑا ہوتا ہے ایک تیز بخار میں تپتے ہوئے بچے کو جب تک بخار ہوتب تک ٹھنڈا رکھنا چاہیئے اسکے لیے
- نیم گرم پانی سے اسفنج سے صاف کرنا یا نہلانا چاہیئے
- اینٹی پیرا سائڈ (دویات جو بخار روکے یا کم کریں) جیسے پیرا سٹیمال یا آئبوبروفین سے علاج کرنا چاہیئے لیکن اسیرن نہ دیاجائے۔
- بخار بڑھتا جارہا ہے ایسا محسوس ہونے پر رعشہ سے بچانا اہم ہے یہ معذور بھی بناسکتا ہے۔
بخار تیزی سے غائب ہوجانے کے باوجود بھی ملیریا سے متاثر بچے کو علاج کا پورا کورس کروانا ضروری ہے۔ اگر علاج مکمل نہ کرایا جائے، ملیریا مزید شدت اختیار کرسکتا ہے اور اسکا علاج مشکل ہوسکتا ہے۔ کسی علاقہ کے افراد میں نامکمل علاج کے سبب دواوں سے مدافعت بھی پیدا ہونے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔
اگر ملیریا کی علامات علاج کے بعدبھی باقی رہتی ہیں تو بچے کو دواخانہ یا ہیلتھ سینٹر لیجانا چاہیئے۔ اس صورت میں مسئلہ درج ذیل سے ہوسکتا ہے۔
- بچے کو مناسب دوائیں نہیں مل رہی ہوگی۔
- بچے کو ملیریا کے علاوہ دیگر بیماری ہو
- ملیریا میں دوا سے مدافعت پیدا ہوگئی ہو اور دیگر کسی دوا کی ضرورت ہو
صحت کی دیکھ بھال فراہم کرنے والوں کی ذمہ داری ہے کہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ والدین اور دیکھ ریکھ کرنے والے ملیریا سے بچاو کی تدابیر کا علم رکھتے اور ملیریا سے متاثرہ بچے کی اچھی طرح سے نگہداشت کے قابل ہوں۔
اہم پیغامات:۔ ملیریا حاملہ خواتین کیلئے کافی خطرناک ہے جہاں کہیں ملیریا عام ہو، انہیں ملیریا سے بچنے کیلئے اینٹی ملیریائی ادویات لینی چاہیئے جنکی سفارش کسی تربیت یافتہ ہیلتھ ورکرنے کی ہو اور انہیں جراثیم کش مچھر دانی میں سونا چاہیئے۔
- دیگر خواتین کے مقابلہ حاملہ خواتین ملیریا سے زیادہ متاثر ہوتی ہیں ۔ یہ بیماری حمل کے دوران زیادہ خطرناک ہوتی ہے بالخصوص پیلے حمل کے دوران یہ اس وجہ سے ہوتا ہے کیونکہ عورت کے جسم میں تبدیلیاں واقع ہوتی ہیں ملیریا کے نتیجہ میں شدید خون کی کمی اسقاط حمل ، قبل از وقت پیدائش یا مردہ بچے کی ولادت جیسے مسائل پیش آتے ہیں۔
- وہ بچے جنکی مائیں دوران حمل ملیریا سے متاثر ہوئی ہوں عام طور پر کم وزن رکھتے ہیں۔ اسکی وجہ سے عمر کے پہلےسال میں انہیں انفیکشن کا زیادہ خطرہ ہوتا ہے اور وہ فوت ہوسکتے ہیں۔
- ایسے علاقہ جہاں ملیریا عام طورپر پھیلاتا ہو خواتین میں پہلے حمل کے دوران ملیریا کی روایاتی علامات ظاہر نہیں ہوتی۔
- احتیاطی علاج کے طور پر ملیریائی علاقوں میں حاملہ خواتین بالخصوص وہ جو پہلی مرتبہ حاملہ ہوئیں ہوں، جن میں علامات ظاہر نہیں ہوتی۔ انہیں ڈاکٹر کی تجویز کردہ اینٹی ملیریائی گولیاں دوسری اور تیسری تہائی میں لینی چاہیئے۔ ہیلتھ ورکر کو معلوم ہوتا ہے کہ کونسی اینٹی ملیریائی گولیاں بہترہیں۔
- یہ بھی بہت زیادہ ضروری ہے کہ حاملہ خواتین جراثیم کش مچھر دانیوں میں ہوں۔
- حاملہ خواتین جن میں پلازموڈیم مالیسپرم ملیریا کی علامات ہوں کا جلد از جلد تربیت یافتہ ہیلتھ ورکر پہلی سہ ماہی میں صحیح علاج اور دوسری اور تیسری سہ ماہی میں ACTکروانا ضروری ہے۔
اہم پیغامات:۔ ایک بچہ جو ملیریا سے متاثر ہو یا ابھررہا ہو اسے بڑی مقدار میں مائع اور غذاوں کی ضرورت ہوتی ہے۔
- ایک لڑکی یا لڑکا جو ملیریا سے متاثر ہواسے بار بار مائع اور غذائیں فراہم کرنا چاہیئے تاکہ پانی کی کمی اور تغذیہ کی کمی سے بچنے میں مدد مل سک
- بار بار ماں کا دودھ پلانے سے ڈی ہائیڈرشن سے بچاجاسکتا ہے اس سے انفیکشن بشمول ملیریا سے لڑنے میں مدد ملتی ہے۔ شیر خوار بچوں کو جو ملیریا سے متاثر ہوں بار بار ماں کا دودھ پلانا چاہیئے۔
- باربار کے ملیریائی انفیکشن سے خون کی کمی {انیمیا} ہوسکتی ہے ایک بچہ جو بار بار ملیریا سے متاثر ہورہا ہو انیمیا کی جانچ کروانا چاہیئے۔
مآخذ:۔ یونیسیف