ہمارے معاشرہ میں اکثر لوگوں کے ذریعے کِسی کے ٹھگے جانے، دھوکہ دھڑی، خوبیوں کے برعکس سامان دئے جانے وغیرہ کی شکایات سُننے کو مِلتی ہیں۔ اِس کا اہم سبب، ایک تو صارفین میں اپنے حقوق کے متعلق بیداری کی کمی ہے، دوسری طرف وہ استحصال کے خلاف آواز اُٹھانے کی ہمت نہیں جُٹا پاتے۔ حکومتِ حند کے ذریعے صارفین کو استحصال سے بچانے کے لئے کئی آئینی حق عطا کئے گئے ہیں، قاعدے-قانون اَور صارفی عدالتیں بنائی گئی ہیں، باوجوُد اِس کے شہر ہو یا گاؤں، صارفین کا استحصال جاری ہے۔ اِس لئے گاہکوں کو اور زیادہ بیدار کرنے کی ضرورت ہے۔ ہندوستان کا مقابلہ اَگر یورپی ممالک سے کیا جائے تو یہ معلوم ہوتا ہے، کہ صارفین کے تحفظ کے لئے یورپی ملک زیادہ بیدار اَور باخبر ہیں۔ وہاں صارفین سے متعلق پالسیوں کی باقاعدہ نگرانی کی جاتی ہیں، جِس سے صارفین کے تعلق میں آنے والی رکاوٹوں کو دور کیا جا سکے۔ صارفین کے تحفظ کے لئے یوروپ میں درج ذیل انتظامات مروجہ ہیں-
یوروپ میں کوئی بھی خریداری سے متعلق نا مناسب معاہدہ جائز نہیں ہے۔ گراہک کا استحصال کسی بھی قمیت پر نہیں کیا جا سکتا ہے۔ اِسی کے ساتھ یہ ضروری ہے کہ تمام چیزوں اَور خدمات پر اُس کی قیمت درج ہو۔ معاہدہ کی شرائط ایسی ہونی چاہئے جو سبھی کو سمجھ میں آئیں۔ فروخت کنندہ کوئی بھی چیز معاہدہ کے مُطابق ہی دےگا، اَگر چیز کو دیتے وقت کوئی کمی ہو تو بیچنے والا یا تو اُس کی مرمت کرےگا یا اُس کی جگہ پر دُوسری چیز دےگا یا اُس کی قیمت کم کرےگا یا اُس معاہدہ کو رد کرتے ہوئے خریدار کو معاوضہ دےگا۔ ای-میل وغیرہ کے ذریعے خریداری کی گئی چیز کے ساتھ بھی یہ شرائط لاگو ہوتی ہیں۔ خوردنی اشیاء پر لیول مقامی زبان میں لگائے جاتے ہوں جِس سے صارفین آسانی سے سمجھ سکیں۔ ہرایک پیکِنگ پر کیلوری، چربی، کاربوہائیڈریٹ، چینی، نمک کی مقدار، زیادہ سے زیادہ کھُدرا قیمت، استعمال کی آخری تاریخ وغیرہ لِکھنا ضروری ہے۔
یورپی ممالک میں صارفین کی شکایات کو نِبٹانے کے لئے صارفین کے نمائندوں، اداروں اَور تنظیمات کو حقوق حاصل ہیں۔ صارفی یونینوں یا صارفی کونسل کے ذریعے نِبٹائے جانے والے مقدمہ کے فیصلہ کنندہ اَور مُدعی کے ذریعے یکساں طور پر منظور کئے جاتے ہیں۔ صنعت کار کے ذریعے صارف کی شکایات کے معقول نپٹارے کے لئے زیادہ دلچسپی دِکھائی جاتی ہے، تاکہ اُن کے مصنوعات کی زیادہ سے زیادہ فروخت ہو سکے۔ یورپی ممالک تمام سطح پر معیارات کو لاگو کرنے کے لئے ثابت قدم ہیں۔ اِن ممالک کے پیداکار یا تاجر طبقہ رضاکارانہ طور پر معیارات کو منظور کرتے ہیں اَور اَچھی مصنوعات بازار میں لانے کی کوشش کرتے ہیں۔ صنعت کاروں کے ذریعے بین الاقوامی بازار میں اپنی دھاک جمانے کے مقصد سے بین الاقوامی سطح کی چیزوں اَور خدمات میسّر کرانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ معیارات کے تعین میں جرمنی کی ' ڈچ ' تنظیم اَور انگلینڈ میں ' معقول کاروبار دفتر ' کا اہم کردار ہے۔ یوروپ میں بڑے پیمانے پر صارف احتجاج چلائے جا رہے ہیں۔ صارفی تحفظ اَور صارفین کے لئے بیداری کے پروگرام ساتھ-ساتھ چلائے جا رہے ہیں۔ یوروپ میں صارفی تحفظ کا علاقہ اشیائےخوردنی حفاظت، صفائی، ماحولیاتی تحفظ، بچوں کی حفاظت، بزرگوں اَور معذوروں کی مدد اَور صارفین کے لئے خطروں کی اطلاع تَک تَفْصِیلی ہو گیا ہے۔ مختصر میں یورپی تہذیب میں صارفین کا بےشمار تحفظ کیا گیا ہے۔
صارف احتجاج کی مَوجُودَہ شکل کی بنیاد اُنِّیسویں صدی کے آخری نصف میں پڑی۔ امریکہ کے قانون داں رالف ناڈر نے موٹرکار اَور ٹایر کے صنعت کاروں اَور کاروباریوں کے ذریعے صارفین کے بیان کردہ استحصال کے خلاف رائےعامہ تیار کرنے کا کام کیا۔ اقوام متحدہ امریکہ کے اُس وقت کے صدر جان۔ ایف۔ کینیڈی نے 15 مارچ، 1962 کو صارفیت کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے امریکی قانون سازمجلس کے سامنے ' صارف حقوق بِل " کا خاکہ پیش کیا۔ اس لئے ہرایک سال 15 مارچ ' عالمی صارف دن ' کے طور پر منایا جاتا ہے۔ کینیڈی کی کامیاب کوششوں کی وجہ سے ہی امریکہ میں ' صارف حفاظتی کمیشن ' کی تشکیل ہوئی اَور برِٹین میں ' معقول کاروبار قانون 1973 ' منظور کیا گیا۔
کینیڈی کے ذریعے پیش ' کنزیومرس بِل آف رائٹس ' میں صارفین کے درج ذیل حقوق کی ضرورت پر زور دیا گیا تھا-
بعد میں اقوام متحدہ کے تتواودھان میں ہیگ میں واقع صارف یونین کی بین الاقوامی تنظیم نے چار اَور حقوق کو اِس میں شامل کر دیا جو
مندرجہ ذیل طرح سے ہیں
کچھ وقت بعد اِن حقوق میں ' نا مناسب کاروباری روایت کے ذریعے استحصال کے خلاف حق ' کو بھی شامل کیا گیا۔
بین الاقوامی صارف یونینوں کے اَن تھک کوششوں کے بعد اقوام متحدہ کے اقتصادی اَور سماجی جلسے کا دھیان صارفی تحفظ سے وابستہ مسائل کی طرف مسحور ہوا۔ اِس کے لگ بھگ دو سالوں بعد کونسل نے ایک سروے کرایا اَور بین الاقوامی تنظیمات سے صلاح-مشورہ کے بعدازاں جنرل اسمبلی کے روبرو صارفی پالیسی کی ترقی کے لئے رہنما اصولوں کا ایک نمونہ، منظوری کے لئے پیش کیا گیا۔ جِس کو اقوام متحدہ نے 9 اَپریل، 1985 کو قبولکر لیا۔ اُس میں درج ذیل مقاصد کی طرف اشارہ کیا گیا تھا۔
اقوام متحدہ کی ہدایات اَور ترقی یافتہ ملک کی حوصلہ افزائی سے ہندوستان میں بھی صارفی تحفظ سے متعلق بہتر قانون بنانے کا ماحول تیار ہونے لگا، جِس کے نتیجے میں صارفی تحفظ قانون، 1986 کو قانونی جامہ پہنایا جا سکا۔
ماخذ : بھارتیہ عوامی انتظامیہ ادارہ، نَئی دِلّی۔
Last Modified : 4/8/2020